Tuesday, 28 March 2023

تم نے شب خون مرے شہر پہ کیوں مارا ہے

تم نے شب خون مرے شہر پہ کیوں مارا ہے

تم نے فرعون کا اے شخص روپ دھارا ہے

کل قیامت کو خدا سے میں یہی پوچھوں گا

مجھ کو کس جرم میں بندوں نے ترے مارا ہے

تم نے مذہب کو کمانے کا وسیلہ سمجھا

ہائے افسوس، خُمارِ شکم کا مارا ہے

حیف تو ظلم و عداوت کو ہوا دیتے ہو

باخبر چال سے تیرے یہ شہر سارا ہے

میرے زخموں کو رفو میرا عدو کر لے گا

کیا سمجھ رکھا ہے تم نے یہ کیا اشارہ ہے

ہم نے جس دیس کا نقشا لہو سے سینچا تھا

کتنا دل سوز مرے دیس کا نظارہ ہے

خوف و دہشت کے شکنجے میں شہر سارا ہے

ڈر ہے اس سے جو محافظ بنا ہمارا ہے

کیا کہوں زیر لب بہت سے دبے شکوے ہیں

چپ ہوں اس واسطے کہ دیس مجھے پیارا ہے

اپنی شوکت سے طلوع عدل کا سورج ہو گا

ٹوٹ جائے گا یہ جو ظلم کا ستارہ ہے

بحرِ امکاں کی ابھرتی ہوئی موجوں نے ضیاء

کتنے سفاک سفینوں کو بھی دے مارا ہے


ضیاء بلتستانی

No comments:

Post a Comment