تم نے شب خون مرے شہر پہ کیوں مارا ہے
تم نے فرعون کا اے شخص روپ دھارا ہے
کل قیامت کو خدا سے میں یہی پوچھوں گا
مجھ کو کس جرم میں بندوں نے ترے مارا ہے
تم نے مذہب کو کمانے کا وسیلہ سمجھا
ہائے افسوس، خُمارِ شکم کا مارا ہے
حیف تو ظلم و عداوت کو ہوا دیتے ہو
باخبر چال سے تیرے یہ شہر سارا ہے
میرے زخموں کو رفو میرا عدو کر لے گا
کیا سمجھ رکھا ہے تم نے یہ کیا اشارہ ہے
ہم نے جس دیس کا نقشا لہو سے سینچا تھا
کتنا دل سوز مرے دیس کا نظارہ ہے
خوف و دہشت کے شکنجے میں شہر سارا ہے
ڈر ہے اس سے جو محافظ بنا ہمارا ہے
کیا کہوں زیر لب بہت سے دبے شکوے ہیں
چپ ہوں اس واسطے کہ دیس مجھے پیارا ہے
اپنی شوکت سے طلوع عدل کا سورج ہو گا
ٹوٹ جائے گا یہ جو ظلم کا ستارہ ہے
بحرِ امکاں کی ابھرتی ہوئی موجوں نے ضیاء
کتنے سفاک سفینوں کو بھی دے مارا ہے
ضیاء بلتستانی
No comments:
Post a Comment