طبیب تھک چکا مگر یہ گھاؤ بھر نہیں رہا
شفا کی آس مر چکی مریض مر نہیں رہا
یہ دیکھ شام ہو گئی بتا کہاں میں جاؤں گا
جو پیڑ تھے وہ کٹ چکے وہ میرا گھر نہیں رہا
تمام عمر کوششیں ہماری رائیگاں گئیں
جو اک شجر بچا لیا تھا وہ بھی بے ثمر رہا
تُو ہی بتا اے خوبرو میں کیوں اداس نہ رہوں
جہاں میں میرا ایک شخص تھا مگر نہیں رہا
جھکا لیا جو تم نے سر سو جان بخش دی گئی
جو ہم نے سر اٹھا لیا، ہمارا سر نہیں رہا
تھکن سے چُور ہو کے جب مقام پر پہنچ گیا
مجھے یہ رنج کھا گیا، مِرا سفر نہیں رہا
ساحر بلتستانی
No comments:
Post a Comment