حاکم و شیخ سے یاری ہو مِرے یار نہیں
میں گنہ گار ہوں اتنا بھی گنہگار نہیں
جبہ و خرقہ و دستار و قبا ایک طرف
سب برہنہ ہیں اگر صاحبِ کردار نہیں
کوئی معبود نہیں کوئی نہیں، صرف خدا
یعنی انکار کا مطلب ہے کہ انکار نہیں
آخرش جھوم کے اٹھے ہیں وہی دیوانے
جو ریاکار سے لگتے تھے، ریاکار نہیں
میں کہ دھتکارا ہوا پھر سے نہیں آؤں گا
چوٹ اور ایک ہی پتھر سے کئی بار نہیں
ایک صحرا ہے جو گلشن کی طرح لگتا ہے
اور گلشن بھی وہی جس میں کوئی خار نہیں
مرگِ یکبار سے آگے تو نہیں مرگ کوئی
ایک دیوار سے آگے کوئی دیوار نہیں
وہ شجاعت ہو یا اعجاز یا فرخ یا ضمیر
حلقۂ عشق میں آ کر کوئی بے کار نہیں
علی اعجاز تمیمی
No comments:
Post a Comment