Friday 31 March 2023

دفعتاً گال پہ اک بوند گری ٹوٹ گئی

 دفعتاً گال پہ اک بوند گِری، ٹُوٹ گئی

کیسے خاموش چھناکے سے ہنسی ٹوٹ گئی

کون سمجھاتا کہ یوں وقت کہاں لوٹتا ہے

سُوئیاں اتنی گُھمائیں کہ گھڑی ٹوٹ گئی

چاپ لگتی رہی قدموں کی، ہتھوڑوں کی طرح

تُو گیا اور مِرے گھر کی گلی ٹوٹ گئی

گٹھڑیاں چُپکی ہیں ایسی کہ اترتی ہی نہیں

لاکھ کہتا ہوں کمر ٹوٹ گئی، ٹوٹ گئی

قریۂ جاں میں چلی تیز ہوا پل بھر کو

یاد کی شاخ ہلی، اور کلی ٹوٹ گئی

کھینچ پڑتی ہے تو آ جاتا ہوں واپس لیکن

کیا کروں گا جو یہ زنجیر کبھی ٹوٹ گئی

جوڑ بیٹھا تھا میں اک روز کوئی آئینہ

پھر مِرے ہاتھ کوئی شے بھی لگی، ٹوٹ گئی

بے خیالی میں اسے پھینک دیا تھا، شارق

اور وہ کانچ کی گُڑیا ہی تو تھی، ٹوٹ گئی 


سعید شارق

No comments:

Post a Comment