Wednesday, 22 March 2023

سفر کا ذائقہ اڑتے ہوئے غبار میں تھا

 سفر کا ذائقہ اڑتے ہوئے غبار میں تھا

سو گرد ہو کے ہمیشہ میں رہگزار میں تھا

فرار ہونے کی خواہش رہی اسے ہر پل

تمام عمر جو خود ساختہ حصار میں تھا

محل سراؤں پہ قابض تھا لشکرِ غدار 

جو بادشاہ تھا اجڑے ہوئے دیار میں تھا

جب اطمینان میسر ہوا تو راز کھلا 

مزا وہ اس میں کہاں ہے جو انتشار میں تھا

بکھر رہا تھا یونہی میرے فن کا تاج محل

میں اقتدار میں شامل نہ اشتہار میں تھا

ابل رہے تھے چٹانوں کی آنکھ سے آنسو

بلا کا درد بہت سوزِ آبشار میں تھا

بہت ہی خوب تھی سردار تیری سرداری

قبیلہ جنگ میں تھا، تُو رہِ فرار میں تھا


عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment