سفر کا ذائقہ اڑتے ہوئے غبار میں تھا
سو گرد ہو کے ہمیشہ میں رہگزار میں تھا
فرار ہونے کی خواہش رہی اسے ہر پل
تمام عمر جو خود ساختہ حصار میں تھا
محل سراؤں پہ قابض تھا لشکرِ غدار
جو بادشاہ تھا اجڑے ہوئے دیار میں تھا
جب اطمینان میسر ہوا تو راز کھلا
مزا وہ اس میں کہاں ہے جو انتشار میں تھا
بکھر رہا تھا یونہی میرے فن کا تاج محل
میں اقتدار میں شامل نہ اشتہار میں تھا
ابل رہے تھے چٹانوں کی آنکھ سے آنسو
بلا کا درد بہت سوزِ آبشار میں تھا
بہت ہی خوب تھی سردار تیری سرداری
قبیلہ جنگ میں تھا، تُو رہِ فرار میں تھا
عزیز نبیل
No comments:
Post a Comment