ملی ترانہ
اے مِری ارضِ وطن
اے مِری ارضِ وطن، پھر تِری دہلیز پہ میں
یوں نِگوں سار کھڑا ہوں کوئی مجرم جیسے
آنکھ بے اشک ہے برسے ہوئے بادل کی طرح
ذہن بے رنگ ہے اجڑا ہوا موسم جیسے
سانس لیتے ہوئے اس طرح لرز جاتا ہوں
اپنے ہی ظلم سے کانپ اٹھتا ہے ظالم جیسے
تُو نے بخشا تھا مِرے فن کو وہ اعجاز کہ جو
سنگِ خارا کو دھڑکنے کی ادا دیتا ہے
تُو نے وہ سحر مرے حرفِ نوا کو بخشا
جو دلِ قطرہ میں قلزم کو چھپا دیتا ہے
تُو نے وہ شعلۂ ادراک دیا تھا مجھ کو
جو کفِ خاک کو انسان بنا دیتا ہے
اور میں مستِ مئے رامش و رنگِ ہستی
اتنا بے حس تھا کہ جیسے کسی قاتل کا ضمیر
یہ قلم تیری امانت تھا مگر کس کو ملا؟
جو لُٹا دیتا ہے نشّے میں سلف کی جاگیر
جیسے میزانِ عدالت کسی کج فہم کے پاس
جیسے دیوانے کے ہاتھوں میں برہنہ شمشیر
تجھ پہ ظلمات کی گھنگھور گھٹا چھائی تھی
اور میں چپ تھا کہ روشن ہے مِرے گھر کا چراغ
تیرے مے خانے پہ کیا کیا نہ قیامت ٹوٹی
اور میں خوش تھا سلامت ہے ابھی میرا ایاغ
میں نے اپنے ہی گنہ گار بدن کو چُوما
گرچہ جویائے محبت تھے تِرے جسم کے داغ
حجلۂ ذات میں آئینے جڑے تھے اتنے
کہ میں مجبور تھا گر محوِ خود آرائی تھا
تیری روتی ہوئی مٹی پہ نظر کیا جمتی
کہ میں ہنستے ہوئے جلووں کا تمنائی تھا
ایک پل آنکھ اٹھائی بھی اگر تیری طرف
میں بھی اوروں کی طرح صرف تماشائی تھا
اور اب خواب سے چونکا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
ایک اک حرف مِرا تیرِ ملامت ہے مجھے
تُو اگر ہے تو مِرا فن بھی، مِری ذات بھی ہے
ورنہ یہ شامِ طرب صبحِ قیامت ہے مجھے
میری آواز کے دکھ سے مجھے پہچان ذرا
میں تو کہہ بھی نہ سکوں کتنی ندامت ہے مجھے
آج سے میرا ہنر پھر سے اثاثہ ہے تِرا
اپنے افکار کی نس نس میں اتاروں گا تجھے
وہ بھی شاعر تھا کہ جس نے تجھے تخلیق کیا
میں بھی شاعر ہوں تو خوں دے کے سنواروں گا تجھے
اے مِری ارضِ وطن اے مِری جاں اے مِرے فن
جب تلک تابِ تکلّم ہے پکاروں گا تجھے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment