Wednesday, 22 March 2023

مٹی ہاتھ لگا لیتی ہے پانی مس ہو جاتا ہے

 مٹی ہاتھ لگا لیتی ہے، پانی مس ہو جاتا ہے

چاک پہ آتے آتے کوزہ خود بے بس ہو جاتا ہے

دن بھر کرنوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں دل میں

شام کے بعد یہ گرجا عیسیٰ کا محبس ہو جاتا ہے

اچھا تو اس کیکر پر زیتون کی شاخیں جھکتی ہیں

اچھا تو یہ ہجر ہے جو ہجرِ اقدس ہو جاتا ہے

قندیلیں سی جل اٹھتی ہیں اشتر پھرنے لگتے ہیں

بعض اوقات یہ ٹاٹ یہ خرقہ سب اطلس ہو جاتا ہے

پہلے میں ماحول میں لے کر آتا ہوں اک خارج کو

پھر وہ خود ماحول کا جزو و پیش و پس ہو جاتا ہے

چورس ہو جاتی ہیں سب قوسیں میری پرکاروں کی

کاغذ پر جو پھول بناتا ہوں کرگس ہو جاتا ہے

گودی کرتا ہوں تو مدفن صدیوں کے مل جاتے ہیں

وقت اگاتا ہوں تو مشتِ گرد و خس ہو جاتا ہے

گِرتا ہوں تو بڑھ جاتی ہے اک مایوسی لشکر میں

سانس اگر لیتا ہوں تو دشمن چوکس ہو جاتا ہے

دھیرے سے اک قرات سی ہوتی ہے مجھ میں اور ہر کام

کیسے کا تو علم نہیں ہے مجھ کو بس ہو جاتا ہے

آدھی قیمت پر لے آتا ہوں سنگِ بنیاد ضمیر

اک چوتھائی نرخ پہ یہ کتبہ واپس ہو جاتا ہے


قیس آروی

ضمیرالحق

No comments:

Post a Comment