Wednesday 22 March 2023

میری مردانگی کو گوارا نہیں

 مردانہ کمزوری


کوئی اپنا مَرا 

میرا اپنا مَرا

میرے آنگن میں ماتم کی صف بچھ گئی

عورتیں بین کرتی رہیں

بچے روتے رہے

میں نہیں رو سکا

میری پہلی محبت جو سَچی بھی تھی 

اور سُچی بھی تھی

جب کسی نے اسے مسترد کر دیا

میرے سینے میں یکدم گھٹن بھر گئی

سانس رکنے لگی

میں نہیں رو سکا

مجھ پہ تہمت لگائی کسی شخص نے

میرے کردار کی لاش پر پاؤں رکھ کر وہ اونچا ہوا

میرے پیروں کے نیچے زمیں نہ رہی

میں نہیں رو سکا

جیسے چرواہا جھولی میں پتے دکھا کر

(جو ہوتے نہیں ہیں) 

بلاتا ہے اپنی طرف بکریاں

مجھ کو ایسے کسی نے کہا؛ آ محبت کریں

اس کے نزدیک جا کر کُھلا 

اس کی جھولی میں چاہت کے پتّے نہیں

میری چیخیں گلے میں رکی رہ گئیں

میں نہیں رو سکا

میں نے دفتر میں اک نوکری ڈھونڈ لی

تھوڑا تھوڑا وہاں روز مرتا رہا

کام کرتا رہا

میرے کانوں میں لاوا انڈیلا گیا

میرے چہرے کی رونق مٹائی گئی

ایک اک رگ سے خوں کو نچوڑا گیا

میرا سارا بدن زرد ہوتا رہا

درد ہوتا رہا

میں نہیں رو سکا

میرے کاندھے پہ عورت کو رکھا گیا

پشت پر باپ کا کنبہ لادا گیا

سر پہ کوّے بھی بھوکے بٹھائے گئے

میرے ہاتھوں میں تلوار دے دی گئی

مجھ کو میرے خدا سے ڈرایا گیا

جب کمر جھک گئی

میں گھسٹ کر چلا

کہنیاں چِھل گئیں

گُھٹنے زخمی ہوئے

خون رِستا رہا

میں نہیں رو سکا

حادثوں، آفتوں

بم دھماکوں، وباؤں میں اور جنگ میں

میرے اپنوں کی لاشیں اٹھائی گئیں

میرا دل بھر کے آنکھوں تلک آ گیا

میں نہیں رو سکا

رات دنیا سے چھپ کر 

میں ایسے جہاں کو خیالوں میں

لاتا ہوں جس میں سبھی دوست ہوں

اس طرح جس طرح

پیڑ کی ایک ٹہنی کٹے تو سبھی ٹہنیاں

خود پہ محسوس کرتی ہیں

آرے کے دانت

اور سبھی ٹہنیاں اپنا رس بانٹتی ہیں کٹی شاخ سے

پھر کئی ٹہنیاں پُھوٹتی ہیں اسی شاخ سے 

ایک ایسے جہاں کو خیالوں میں لاتا ہوں

جس میں سبھی عورتیں

شادمانی میں کُھل کر ہنسیں

درد میں مرد بھی رو سکیں

میں بہت رو کے چِلا کے دنیا کو بتلا سکوں 

میرے اعصاب میں کس قدر درد ہے

میں تصور میں لاتا ہوں ایسی جگہ

جس جگہ مجھ کو روتا ہوا دیکھ کر

کوئی یہ نہ کہے؛ 

مرد بن، مرد بن

صبح ہوتے ہی میں

اپنی ساری اذیت کو 

کاندھوں پہ لادے ہوئے کام پر جاتا ہوں

اُس جہاں کے خیالوں سے باہر نکل آتا ہوں

کیوں کہ ایسا جہاں

جس میں عورت کو اپنے برابر سمجھنا پڑے

میری مردانگی کو گوارا نہیں


شعیب کیانی

No comments:

Post a Comment