رنج سے چیختی ہوئی آخر
روٹھنے لگ گئی خوشی آخر
عشق میں مشورہ ضروری تھا
میں نے مجنوں سے بات کی آخر
جانے کیا تھا چراغ کی لو میں
کہ ہوا ڈر کے بجھ گئی آخر
اتنی مجبور تھی کہ چلنے لگی
وقت کے ساتھ ہی گھڑی آخر
اپنے جیسا سمجھ کے ساتھ مِرے
میری تنہائی چل پڑی آخر
وہ دبے پاؤں میرے پاس آئی
کوئی تو احتیاط تھی آخر
شام سے دل اداس تھا شیراز
میں نے پھر اک غزل کہی آخر
شیراز غفور
No comments:
Post a Comment