Sunday 19 March 2023

ہابیل کی لاش ہے گھاس پر مفرور ہے بھائی قابیل

 نوحۂ مرگِ ہابیل

ہابیل کی لاش ہے گھاس پر

مفرور ہے بھائی قابیل

اک پرندہ آیا وہاں، ڈبوئی اس نے منقار اپنی

خون میں، سیدھا ہوا، اڑ گیا

اڑتا رہا پھر دنیا بھر میں یہ طائر پرواز 

اس کی سہمی ہوئی آواز جیسے بس ایک چیخ

چیخ بھی ایک نوحہ جو ختم ہوتا نہیں

نوحہ بھی ہابیل کے حسنِ دلکش کا اور موت کے درد کا

سیاہکار قابیل اور روح کے کرب کا

اور جوانی کے اپنے دنوں کا جو ماضی ہوئے

پھر قابیل کا اک تیر جو اس کے دل میں لگا

تو تصادم، جدل، موت کی یہ کہانی لیے

پہنچا وہ طائر ہر شہر میں، ہر گاؤں میں

ہر کوئی ہو گیا اس کا دشمن مگر وہ لڑتا رہا

دشمنوں سے وہ بیزار تھا، خود سے بھی کچھ کہ شک ہی میں تھا

گلیوں محلوں میں وہ اس کا پیچھا کیے اور وہ خود اپنا تعاقب

یہاں تک کہ رات ایک کے بعد اک چھانے لگی

حتیٰ کہ قابیل نے اپنی جاں لینے کا خود ہی ساماں کیا

وہ پرندہ فضا میں گُم جو ہوا، خوں میں ڈوبی اسی چونچ سے

نکلے نوحے کا ہے ہر طرف شور اب تلک

یہ نوحہ سنتا ہے قابیل بھی، مقتول ہابیل بھی آج تک

اور آسماں کے خیمے تلے آدم کئی صد ہزار

لاکھوں مگر ایسے بھی ہیں جو یہ نوحہ کبھی سنتے نہیں

نہیں جاننا چاہتے وہ کہ ہابیل مر بھی چکا اور قابیل کو

ہے دل کے بڑے کرب و الم کا سامنا

نہیں جانتے وہ اس خون کو جو زخموں سے بہتا ہے اب بھی

نہ اس جنگ کو جو ابھی کل ہی ہوئی تھی

جس کی کہانی کتابوں میں پڑھتے ہیں اب وہ

وہ سب پیٹ جن کے پھولے ہوئے، اور جو خوش ہیں

وہ بھی جو ہیں کھردرے اور توانا، جن کی نظر میں مگر

ہابیل، قابیل، موت اور گریہ کچھ بھی نہیں ہیں

وہ سب جو کہتے ہیں جنگ ہوتی ہے عہدِ کبیر

پھر جو طائر وہی ماتم کناں گر ان کے اوپر سے گزرے

یاسیت ہی کا مارا، اندھیرے ہی سوجھیں اسے، کہتے ہیں وہ

یہ بھی کہ مضبوط ہیں ہم، ہم پہ فتح کس نے پائی

یہ کہتے ہوئے اس پرندے کو وہ پتھر بھی ماریں

یہاں تک کہ طائر وہ ہو جائے چُپ، دکھائی نہ دے

یا وہ کہیں؛ کوئی دُھن بجاؤ کہ اِس کی صدا تک نہ آئے

ہے اس کی صوتِ حزیں مزاحم ہمارے لیے

وہ طائر مگر اپنی منقار پر خوں کا ننھا سا قطرہ لیے

کوچہ بہ کوچہ، قریہ بہ قریہ اڑتا ہی جائے

مرگِ ہابیل پر دم بہ دم نوحہ کرتا ہی جائے


(Hermann Hesse) ہیرمان ہیسے

اردو ترجمہ مقبول ملک

No comments:

Post a Comment