میں اس اجنبی سے واقف نہیں
میں نہ تو اس اجنبی سے واقف ہوں نہ ہی اس کے مناقب سے
میں نے بس ایک جنازہ دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑا
دوسروں کی طرح احتراماً سر جھکائے ہوئے
میرے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوچھ لوں؛
یہ اجنبی کون ہے؟
کہاں رہتا تھا اور کیسے مر گیا؟
کیونکہ موت کی وجوہات تو بہت ہیں؛
جن میں سے ایک درد زندگی بھی ہے
میں نے خود سے پوچھا؛ یہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟
یا عدم کو دیکھ کر انجام پر افسردہ ہے؟
مجھے معلوم تھا کہ
وہ بنفشی پھولوں سے ڈھکی لاش کو ہرگز نہیں کھولے گا
کہ ہمیں الوداع اور شکریہ کہہ دے
اور حقیقت کی سرگوشی کر دے
(کہ حقیقت کیا ہے؟)
شاید ان گھڑیوں میں وہ بھی ہماری ہی طرح ہے
اپنا سایہ لپیٹ رہا ہے
لیکن یہ وہ ہے جس کی آنکھ آج کی صبح تک نمناک نہیں تھی
اس نے موت کو اپنے اوپر باز کی طرح منڈلاتے نہیں دیکھا تھا
کیونکہ زندے تو موت کے چچیرے ہوتے ہیں
اور مرنے والے سوئے رہتے ہیں پُرسکون، پُرسکون، پُرسکون
میرے پاس یہ سوال کرنے کا کوئی سبب نہیں تھا کہ
یہ اجنبی کون ہے؟
اس کا نام کیا ہے؟
اس کے نام میں کوئی چمکتی بجلی بھی نہیں
جبکہ اس کے پیچھے چلنے والے
بس دس لوگ ہیں، میرے علاوہ
چرچ کے دروازے پر مجھے یہ خیال آیا
شاید یہ کوئی مصنف ہے یا مزدور
یا پناہ گزیں یا چور یا شاید کوئی قاتل؟
کوئی فرق نہیں موت کے لیے سب مرنے والے ایک سے ہیں
یہ بولتے نہیں شاید یہ خواب بھی نہیں دیکھتے
اجنبی کا یہ جنازہ شاید میرا ہی جنازہ ہے
لیکن کسی امر الہیٰ نے بعض وجوہات سے اس کو ٹال دیا ہے
اور پھر اس قصیدے میں ایک بڑی غلطی ہے
شاعری محمود درویش
اردو ترجمہ نائلہ حبیب
No comments:
Post a Comment