بے نشانی سے نشانی سے بھی پہلے کے ہیں
ہم کہ آدم کی کہانی سے بھی پہلے کے ہیں
کچھ تِرے ملنے ملانے سے بھی نِیت بدلی
کچھ بخارات تو پانی سے بھی پہلے کے پیں
اس کٹاؤ میں کناروں کا کوئی دخل نہیں
یہ تو دریا کی روانی سے بھی پہلے کے ہیں
سینۂ سنگ پہ ہم نے ہی قدم رکھا تھا
ہم یہاں نقل مکانی سے بھی پہلے کے ہیں
ہم، کہ طغیانی کو رد کرتے ہوئے گزریں گے
ہم، کہ موجوں میں روانی سے بھی پہلے کےہیں
شاہد نواز
No comments:
Post a Comment