دونوں اک دوجے کی ضد پر جاگتے ہیں
اک تارہ اور آنکھ برابر جاگتے ہیں
عشق نگر کے دیوانوں کا دعویٰ ہے
ہم اس کالی رات سے بہتر جاگتے ہیں
دن ہوتے ہی جانے کوئی کس سمت کو جائے
ایک ہی رات ہے آؤ مل کر جاگتے ہیں
خواب میں کتنے پیارے لوگ آ ملتے ہیں
ہم سوتے ہیں اور مقدر جاگتے ہیں
جاگتے ہیں یوں خواب ہماری آنکھوں میں
جیسے جھیل کے اندر پتھر جاگتے ہیں
توقیر احمد
No comments:
Post a Comment