شامِ الم بھی گزری پہلو بدل بدل کر
روتا رہا ہے یہ دل پہروں مچل مچل کر
منزل کی جستجو میں پہنچے کہاں کہاں ہم
دیکھا کیے تماشہ رستے بدل بدل کر
شہرِ وفا میں ہم نے سب کچھ لٹا دیا ہے
یہ بات ان سے کہنا لوگو سنبھل سنبھل کر
کیا ضد کریں گے تجھ سے اے گردش زمانہ
ہنسنا بھی آ گیا ہے غم سے بہل بہل کر
گلنار ضبط غم کی یہ انتہا بھی دیکھی
دامن بھگو رہے ہیں آنسو نکل نکل کر
گلنار آفرین
No comments:
Post a Comment