بکھرے بالوں میں زرد رو چہرہ
کوئی پت جھڑ کی شام ہو جیسے
مضمحل لفظ، مضطرب لہجہ
اس پہ باتیں بھی راگ دیپک سی
اس قدر پُر ملال تھیں آنکھیں
جس کو دیکھیں اداس کر ڈالیں
مجھ سے بس دو قدم کی دوری پر
اب سے کچھ دیر پہلے بیٹھی تھی
چاہ جاگی تھی دل میں شدت سے
روبرو بیٹھ کر پڑھوں اس کو
چار باتوں میں کچھ سوال کروں
راگ دیپک وہ چھیڑ دے میں جلوں
خوف تھا یا مجھے جھجھک تھی کوئی
چاہ کر بھی میں جا نہیں پایا
ایک ہی پل کا فیصلہ تھا مگر
ہو گیا تھا میں اس کے زیرِ اثر
دو قدم جیسے اک صدی کا سفر
دو قدم بھی اٹھا نہیں پایا
ماوٰی سلطان
No comments:
Post a Comment