مستقل ہو نہ ہو، ادھار ملے
دل کی حسرت کو کچھ قرار ملے
دو گھڑی ہی سہی چلے آؤ
غم کو پھر سے ذرا نکھار ملے
ہم کہ سمجھے تھے خود کو ہی یکتا
راہ میں ہم سے بے شمار ملے
روز مرتا ہوں کیا تماشا ہے
زندگی بھی تو ایک بار ملے
بس میں دنیا نہیں، چلو نہ سہی
خود پہ ہم کو تو اختیار ملے
خواب تک تھا وہ قافلہ میرا
اور جاگوں تو بس غبار ملے
جو محبت کرے محبت سے
اس کا دامن ہی تار تار ملے
اس کی تنہائیوں کا مت پوچھو
جس کو نفرت ملی نہ پیار ملے
وہ جو مجنوں پہ تھا ہنسا کرتا
آج ابرک وہ زار زار ملے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment