اپنے ہمراہ محبت کے حوالے رکھنا
کتنا دشوار ہے اک روگ کو پالے رکھنا
اتنا آسان نہیں بند گلی میں رہنا
شہرِ تاریک میں یادوں کے اجالے رکھنا
ہم زیادہ کے طلبگار نہیں ہیں لیکن
وقت کچھ بہرِ ملاقات نکالے رکھنا
بات کر لیں گے جدائی پہ کہیں بعد میں ہم
اپنے ہونٹوں پہ سرِ بزم تو تالے رکھنا
کام آئیں گے کسی روز تمہارے یہ گُہر
اپنے اشکوں کو مِری جان سنبھالے رکھنا
جِھیل پر جیسے کوئی کالی گھٹا چھا جائے
نِیلی آنکھوں پہ گھنی پلکوں کو ڈالے رکھنا
اس کو اُجڑے ہوئے لوگوں سے ہے الفت شاہد
بال بکھرائے ہوئے، پاؤں میں چھالے رکھنا
شاہد فرید
No comments:
Post a Comment