ہوا سرکش، اندھیرا سخت جاں ہے
چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے
یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو
کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے
ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ
پسِ منظر بھی کوئی امتحاں ہے
وہی بے فیض راتوں کا تسلسل
وہی میں اور وہی خواب گراں ہے
مِرے اندر ہے اک پیاسا کنارہ
مِرے اطراف اک دریا رواں ہے
شہناز نبی
No comments:
Post a Comment