عشق میں فرصتِ مسلک نہیں دی جاتی ہے
آگ ہے آگ کو ٹھنڈک نہیں دی جاتی ہے
دھوپ میں جلتے درختوں کو دعا دے جاؤ
ان کے سر پر کوئی اجرک نہیں دی جاتی ہے
اس لیے دُکھ نہیں آتا ہے بتا کر کوئی
گھر جو اپنا ہو تو دستک نہیں دی جاتی ہے
جانے والا تو ٹھہر جائے، پلٹ بھی آئے
اتنا بے جاں ہوں صدا تک نہیں دی جاتی ہے
میں مگر کارِ وفا ترک نہیں کر سکتا
مجھ کو اُجرت مِری بیشک نہیں دی جاتی ہے
اک چٹائی بھی بہت حجرہ نشینوں کو میاں
مسندِ مشہد و ایبک نہیں دی جاتی ہے
زخم ایسا ہو جو ناسورِ بدن ہو جاناں
شب گزاری کو یہ بیٹھک نہیں دی جاتی ہے
ہجر کے واسطے دل خاص چنے جاتے ہیں
عام شعلوں کو ہوا تک نہیں دی جاتی ہے
آپ کے شہر کا دستور جدا ہے، ورنہ
رونے والوں کو مبارک نہیں دی جاتی ہے
ایک تو مرگِ مراسم کی خبر دل کو، ضمیر
اور پھر ایسے، اچانک، نہیں دی جاتی ہے
ضمیر قیس
ضمیر حسن
No comments:
Post a Comment