بدن سے کر کے تیمم قیام کر لیا ہے
نمازِ عشق میں دل کو امام کر لیا ہے
جنابِ قیس کے مرقد پہ رکھ کے ایک دِیا
٭ضریح چُوم کے جھک کر سلام کر لیا ہے
زباں پہ تالے لگائے گئے تو کیا، ہم نے
نظر نظر سے مِلا کر کلام کر لیا ہے
مہک اٹھے ہیں خیالوں کے آخری زینے
یہ کس جمال نے مجھ میں خرام کر لیا ہے
بسا لیا ہے نیا ایک ہجر سینے میں
پرانے درد سے رشتہ تمام کر لیا ہے
کسے بتائیں کہ شاہوں نے ڈال دی ہے سِپر
ہمیں کسی کی نِگہ نے غلام کر لیا ہے
میثم علی آغا
٭ضریح: قبر کے گرد لگا جالی دار احاطہ
No comments:
Post a Comment