Monday, 20 March 2023

میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا

 میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا 

رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا 

گلشن کی جنوں انگیز فضا کیا ویسی جنوں انگیز نہیں 

بلبل نے بغاوت کی لے میں کیا اب سے چہکنا چھوڑ دیا 

ظلمت کے خداؤ کھل کے کہو کیا نور نے گھٹنے ٹیک دئے 

سورج نے چمکنا چھوڑ دیا تاروں نے چھٹکنا چھوڑ دیا 

اب عشق کے سینے کے اندر طوفان امڈتے ہیں کہ نہیں 

کیا حسن کی پلکوں کے اوپر موتی نے دمکنا چھوڑ دیا 

کچھ میخانے کا حال کہو کیا جام سے گردش چھوٹ گئی 

کیا مے سے نشہ اڑ نکلا رندوں نے بہکنا چھوڑ دیا 

ظالم کی خدائی کو لاحق کیا خوف تغیر ہے کہ نہیں 

مظلوم کے دل میں دکھوں کے کانٹوں نے کھٹکنا چھوڑ دیا 


نعیم صدیقی

No comments:

Post a Comment