میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا
رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا
گلشن کی جنوں انگیز فضا کیا ویسی جنوں انگیز نہیں
بلبل نے بغاوت کی لے میں کیا اب سے چہکنا چھوڑ دیا
ظلمت کے خداؤ کھل کے کہو کیا نور نے گھٹنے ٹیک دئے
سورج نے چمکنا چھوڑ دیا تاروں نے چھٹکنا چھوڑ دیا
اب عشق کے سینے کے اندر طوفان امڈتے ہیں کہ نہیں
کیا حسن کی پلکوں کے اوپر موتی نے دمکنا چھوڑ دیا
کچھ میخانے کا حال کہو کیا جام سے گردش چھوٹ گئی
کیا مے سے نشہ اڑ نکلا رندوں نے بہکنا چھوڑ دیا
ظالم کی خدائی کو لاحق کیا خوف تغیر ہے کہ نہیں
مظلوم کے دل میں دکھوں کے کانٹوں نے کھٹکنا چھوڑ دیا
نعیم صدیقی
No comments:
Post a Comment