Monday 20 March 2023

تیری جانب ہم جو لے کر خواب سارے چل پڑے

 تیری جانب ہم جو لے کر خواب سارے چل پڑے

جب چلے تو یوں لگا جیسے ستارے چل پڑے

پہلے مجھ کو ہجر نے صحرا بنا کے رکھ دیا

پھر مِری جانب سمندر کے کنارے چل پڑے

جانتے ہیں آگ کا دریا ہے منزل کی طرف

پھر بھی ہم تیرے تصور کے سہارے چل پڑے

پہلے پہلے تو زمانے نے مِری تحقیر کی

پھر مِرے نفشِ قدم پر لوگ سارے چل پڑے

بادہ و ساغر نہ ساقی پھر بھی سُوئے مےکدہ

تشنگی دل کی بجھانے غم کے مارے چل پڑے

حسن کی بارش نے جب دل کی فضا بدلی خلیل

آنکھ میں قوسِ قزح کے پھر اِشارے چل پڑے


خلیل مرزا

No comments:

Post a Comment