تیری جانب ہم جو لے کر خواب سارے چل پڑے
جب چلے تو یوں لگا جیسے ستارے چل پڑے
پہلے مجھ کو ہجر نے صحرا بنا کے رکھ دیا
پھر مِری جانب سمندر کے کنارے چل پڑے
جانتے ہیں آگ کا دریا ہے منزل کی طرف
پھر بھی ہم تیرے تصور کے سہارے چل پڑے
پہلے پہلے تو زمانے نے مِری تحقیر کی
پھر مِرے نفشِ قدم پر لوگ سارے چل پڑے
بادہ و ساغر نہ ساقی پھر بھی سُوئے مےکدہ
تشنگی دل کی بجھانے غم کے مارے چل پڑے
حسن کی بارش نے جب دل کی فضا بدلی خلیل
آنکھ میں قوسِ قزح کے پھر اِشارے چل پڑے
خلیل مرزا
No comments:
Post a Comment