اپنی تو ساری توجہ ہی نبھانے پر تھی
جبکہ اپنوں کی نظر کام چلانے پر تھی
تشنگی بڑھتی گئی حسن کی سیرابی سے
روز اک شکل نگاہوں کے نشانے پر تھی
اک عجب پیاس نے پھر سارا بدن گھیر لیا
میں نے اک زلف کو سونگھا جو سرہانے پر تھی
ہم بھی تسخیر تو کر لیتے یہ دنیا لیکن
یہ نظر اپنی، کسی اور زمانے پر تھی
ان نگاہوں نے مِرا سارا سفر روک لیا
ورنہ منزل میری آنکھوں کے نشانے پر تھی
اک تِرے نام سے بکھری میری ترتیب حیات
اس سے پہلے تو ہر اک چیز ٹھکانے پر تھی
توقیر رضا
No comments:
Post a Comment