میرا انتظار مرجھایا پھول ہے
میں چمگادڑوں کی طرح تنہا ہوں
میرے انتشار خون میں سانپوں کی پھنکار رینگتی ہے
میرا جسم اُڑ گئے پرندوں کے بعد لرزتی شاخ ہے
آج وقت میری گرفت میں نہیں
آج رومی میری تشفی نہیں بن رہا
میری کمزور روح
تیرے سینے کا یہ پتھر خود غرضی ہے یا محبت
نجات کا کوئی راستہ نہیں
دن کا کولہو مجھے پیل رہا ہے
رات کی چکی مجھے پیس رہی ہے
اور کھیت کھیت پھیلی میرے انتظار کی سرسوں
شام کا مرجھایا ہوا پھول بن گئی ہے
زاہد امروز
No comments:
Post a Comment