Monday, 20 March 2023

میرا انتظار مرجھایا پھول ہے

 میرا انتظار مرجھایا پھول ہے


میں چمگادڑوں کی طرح تنہا ہوں

میرے انتشار خون میں سانپوں کی پھنکار رینگتی ہے

میرا جسم اُڑ گئے پرندوں کے بعد لرزتی شاخ ہے

آج وقت میری گرفت میں نہیں

آج رومی میری تشفی نہیں بن رہا

میری کمزور روح

تیرے سینے کا یہ پتھر خود غرضی ہے یا محبت

نجات کا کوئی راستہ نہیں

دن کا کولہو مجھے پیل رہا ہے

رات کی چکی مجھے پیس رہی ہے

اور کھیت کھیت پھیلی میرے انتظار کی سرسوں

شام کا مرجھایا ہوا پھول بن گئی ہے


زاہد امروز

No comments:

Post a Comment