Tuesday, 14 March 2023

یہ ترے نغمے ترے قہقہے پھیکے پھیکے

 یہ تِرے نغمے، تِرے قہقہے پھیکے پھیکے

یہ تِرے خال یہ خط زرد سے دُھندلے دُھندلے

دے رہے ہیں تِری عفّت کی تباہی کا ثبوت

ہے تِرا رنگ، تِرے دل کی سیاہی کا ثبوت

غیظ میں کھوکھلے جوبن کی اٹھانوں کو نہ کھینچ

سجا ہوا تِرا کمرا ہے خواب گاِہ جمیل

شکن سے پاک ہے رنگین پلنگ کی چادر

پڑے ہیں کونے میں کیوں تیل، صابن اور حمام

ابھی کل ہی کا قصہ ہے کہ اک نادار دوشیزہ

سڑے تالاب کی سخت اور گندی کھال کی مچھلی

پھٹے کپڑوں میں لپٹی میل سے چکٹی نزاکت سے

اِدھر وہ رحم کی طالب، اُدھر میں سوچ میں گم تھا

بُری کیا ہے، اگر اک رات اس کے ساتھ کٹ جائے


مخمور جالندھری

گور بخش سنگھ

No comments:

Post a Comment