Friday 17 March 2023

کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں

 کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں

تباہ کر گیا مجھے وہ دوستی کی آڑ میں

وہ جب چلا گیا یہاں سے پھر مجھے خبر ہوئی

کہ موت پالتا رہا ہوں زندگی کی آڑ میں

وہ شخص بھی عجیب تھا عجیب اس کے شوق تھے

خدا تراشتا رہا صنم گری کی آڑ میں

میں قُربتوں کی چاہ میں قریب اس کے ہو گیا

وہ دور مجھ سے ہو گیا تھا پھر سہی کی آڑ میں

عجب نہیں بہار رُت میں سانپ بھی ہوں باغ میں

کسی گُلاب کی جگہ کسی کلی کی آڑ میں

سخن کی لے نے دوریوں کے سلسلے مٹا دئیے

تِرے قریب آ گئے ہیں شاعری کی آڑ میں


شاہد فرید

No comments:

Post a Comment