Friday, 17 March 2023

میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں

الجھے بکھرے لوگ


میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں

خود یہاں ہیں مگر

سوچ پنچھی کہیں دور صحراؤں میں

اپنی بے پر اڑانوں میں کھویا ہوا

بال چڑیا کا اجڑا ہوا گھونسلا

اور خیالات چمگادڑوں کی طرح ہیں

پروں میں مسافت سمیٹے ہوئے

بند گنبد میں چکر لگاتے رہیں

کوئی منزل نہیں

میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں

جن کے ماتھے پر مکڑی نے جالے بُنے

خشک لکڑی کی مانند ابرو تَنے

آنکھیں ویراں خالی مکاں کے دریچے ہیں

سہمے ہوئے

برف ہونٹوں سے یخ بستہ باتیں کریں

لفظ بے رنگ ہیں

لہجے خوشبو نہیں

دھوپ چہرے مگر

ان پر ہر دم کوئی خاک اڑتی ہوئی​

میرے چوگرد مٹتے ہوئے لوگ ہیں

برقی تاروں کا جال ان کو جکڑے ہوئے

چال روبوٹ سے

ہاتھ میکانکی

شہرِ اعداد کے فیصدی لوگ ہیں

روزو شب کمپیوٹر سے باتیں کریں

روزو شب خود کو ای میل کرتے رہیں

میرے چوگرد بھٹکے ہوئے لوگ ہیں

وقت کی سوئیوں کے تعاقب میں جو

لمحے لمحے میں تقسیم ہوتے گئے

اتنا جانا نہیں

کتنی تیزی سے گاڑی بھگاتے رہو

ہندسوں کی سڑک ختم ہوتی نہیں


 شہزاد نیر


No comments:

Post a Comment