الجھے بکھرے لوگ
میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں
خود یہاں ہیں مگر
سوچ پنچھی کہیں دور صحراؤں میں
اپنی بے پر اڑانوں میں کھویا ہوا
بال چڑیا کا اجڑا ہوا گھونسلا
اور خیالات چمگادڑوں کی طرح ہیں
پروں میں مسافت سمیٹے ہوئے
بند گنبد میں چکر لگاتے رہیں
کوئی منزل نہیں
میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں
جن کے ماتھے پر مکڑی نے جالے بُنے
خشک لکڑی کی مانند ابرو تَنے
آنکھیں ویراں خالی مکاں کے دریچے ہیں
سہمے ہوئے
برف ہونٹوں سے یخ بستہ باتیں کریں
لفظ بے رنگ ہیں
لہجے خوشبو نہیں
دھوپ چہرے مگر
ان پر ہر دم کوئی خاک اڑتی ہوئی
میرے چوگرد مٹتے ہوئے لوگ ہیں
برقی تاروں کا جال ان کو جکڑے ہوئے
چال روبوٹ سے
ہاتھ میکانکی
شہرِ اعداد کے فیصدی لوگ ہیں
روزو شب کمپیوٹر سے باتیں کریں
روزو شب خود کو ای میل کرتے رہیں
میرے چوگرد بھٹکے ہوئے لوگ ہیں
وقت کی سوئیوں کے تعاقب میں جو
لمحے لمحے میں تقسیم ہوتے گئے
اتنا جانا نہیں
کتنی تیزی سے گاڑی بھگاتے رہو
ہندسوں کی سڑک ختم ہوتی نہیں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment