Wednesday, 15 March 2023

ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا

 ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا 

حیرت ہے کہ اک شخص ہمارا نہیں ہوتا

دل صورتِ دریا ہے تو دریا کے کنارے

وہ بھی چلا آتا ہے جو پیاسا نہیں ہوتا

ہر شکل شریفانہ تو ہو سکتی ہے لیکن

ہر شخص حقیقت میں فرشتہ نہیں ہوتا

ہر ایک سے ہنس ہنس کے مخاطب نہ ہوا کر

ہر ایک سے کھل جانا بھی اچھا نہیں ہوتا

جذباتِ محبت میں یہ ٹھہراؤ ہے کیسا

دریا تو مِری جاں کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا

امیدِ ملاقات بجا ہے مگر اب کے

دھڑکن پہ تِری چاپ کا دھوکا نہیں ہوتا

اب جی میں جو آئے ہمیں کہہ لو مگر انصر

اچھوں کو برا کہنا بھی اچھا نہیں ہوتا


سید انصر

No comments:

Post a Comment