ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا
حیرت ہے کہ اک شخص ہمارا نہیں ہوتا
دل صورتِ دریا ہے تو دریا کے کنارے
وہ بھی چلا آتا ہے جو پیاسا نہیں ہوتا
ہر شکل شریفانہ تو ہو سکتی ہے لیکن
ہر شخص حقیقت میں فرشتہ نہیں ہوتا
ہر ایک سے ہنس ہنس کے مخاطب نہ ہوا کر
ہر ایک سے کھل جانا بھی اچھا نہیں ہوتا
جذباتِ محبت میں یہ ٹھہراؤ ہے کیسا
دریا تو مِری جاں کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا
امیدِ ملاقات بجا ہے مگر اب کے
دھڑکن پہ تِری چاپ کا دھوکا نہیں ہوتا
اب جی میں جو آئے ہمیں کہہ لو مگر انصر
اچھوں کو برا کہنا بھی اچھا نہیں ہوتا
سید انصر
No comments:
Post a Comment