شہر بینا کے لوگ
دست شفقت کٹا اور ہوا میں معلق ہوا
آنکھ جھپکی تو پلکوں پہ ٹھہری ہوئی خواہشیں دھول میں اٹ گئیں
شہر بینا کی سڑکوں پہ نا بینا چلنے لگے
ایک نادیدہ تلوار دل میں اترنے لگی
پاؤں کی دھول زنجیر بن کر چھنکنے لگی
اور قدم سبز رو خاک سے خوف کھانے لگے
ذہن میں اجنبی سرزمیں کے خیالات آنے لگے
سارے نا بینا اک دوسرے کا سہارا بنے
سر پہ کانٹوں بھرا تاج اور ہاتھ میں موتیے کی چھڑی تھام کر
دور سے آنے والی صدا کے تعاقب میں یوں چل پڑے
جیسے ان کا مسیحا اسی سمت ہو
جیسے ان کے مسیحا کی آنکھوں میں صرف ان کی تصویر ہو
جیسے ان کے خیالوں میں کھلتی زمیں ان کی جاگیر ہو
اعجاز رضوی
No comments:
Post a Comment