امجد اسلام امجد کی اپنی والدہ کے انتقال پر کہی گئی نظم
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں
وہی کھو گئی
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایۂ مہرباں
وہ جو ایک پارۂ ابر تھا سرِ آسماں
پسِ ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اُجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں
وہی کھو گئی
اے خدائے واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صَید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاع ہے
تیری دَین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اس کی ساعتِ آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جائے پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بُجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے چار سُو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کہ تُو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دستِ معجزہ ساز ہیں
گلِ خوش جمالِ بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سدا پُر فضا وہ لحد رہے
تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment