دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر
شام آئی ہے تِرے در سے پریشاں ہو کر
وہ تفرقہ ہوا برپا تِرے کھو جانے پہ
دل ہی روپوش ہوا بے سرو ساماں ہو کر
ہے کوئی شوخ جو بہکائے، اٹھائے اس کو
درد بیٹھا ہے یہاں دیر سے درباں ہو کر
جب تِری یاد تراشی، اسے سیراب کیا
کھل اٹھا جیسے کوئی خار گلستان ہو کر
یہ مِرے پاؤں میں کس خواب کی زنجیر ہے جو
راستہ مجھ پہ کھلا دیدۂ حیراں ہو کر
حسین عابد
No comments:
Post a Comment