اک دعا خون میں تر ہوئی
کٹ گیا ہاتھ اور انگلیاں کھو گئیں
اک دعا خون میں تر ہوئی
تم پہ صد آفریں
علم کا وہ علم پھر بھی تھامے رہیں
تم کو معلوم ہے
کتنی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے
کتنے ہی دل لہو ہو گئے
کٹ گیا ہاتھ تو غم نہ کرنا کبھی
خود کو جھکنے نہ دینا کبھی
مسکراتی ہوئی غم میں ڈوبی ہوئی
زندگی کی قسم
علم کی روشنی کی قسم
آگہی کی قسم
تم اکیلی نہیں
کتنے ہی ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں
دعا کے لیے
تم سلامت رہو
تم سلامت رہو
فوقیہ مشتاق
No comments:
Post a Comment