تیرے کاندھوں پہ صرف سر ہے میاں
میرے کاندھوں پہ میرا گھر ہے میاں
موج مستی تمہیں مبارک ہو
جاں مسائل کی رہگزر ہے میاں
چھالے پچھلے سفر کو روتے ہیں
اس پہ درپیش پھر سفر ہے میاں
ایک ہم ہی ہمارے جیسے ہیں
ہم سا ہونا بھی اک ہنر ہے میاں
یہ جو میرے خلاف ہیں سارے
ان کو کیا روشنی سے ڈر ہے میاں
وہ خدا ہے معاف کر دے گا
ہم پہ لوگوں کی بھی نظر ہے میاں
جس کو در در تلاش کرتا ہے
تیرے اندر ہی وہ نگر ہے میاں
بے خبر ہیں جو ہنس رہے ہیں سبھی
کیسے ہنس دوں مجھے خبر ہے میاں
جس کے سائے میں کچھ پنپتا نہیں
ابنِ آدم وہی شجر ہے میاں
جب سے ٹکرائے ہیں محبت سے
اپنا سب کچھ اِدھر اُدھر ہے میاں
اب تو خود ، خود سے ہم یہ پوچھتے ہیں
وہ جو ابرک سا تھا، کدھر ہے میاں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment