تیز لہکتی بارش ہے، رسی پر کپڑے بھیگتے ہیں
آؤ ہم بھی ایسے بھیگیں جیسے بچے بھیگتے ہیں
سرخ سنہری بیلڑیوں پر نقرئی کلیاں کھل اٹھیں
ایک گلابی سرمستی میں پھول اور پتے بھیگتے ہیں
دیکھو یوں بھیگا جاتا ہے شام کے سنگِ مرمر پر
دھوپ اور بارش ساتھ ہیں دونوں اور اکٹھے بھیگتے ہیں
کھڑکی کے باہر کا منظر بالکل کمرے جیسا ہے
رخساروں پر بہتی بوندیں جیسے شیشے بھیگتے ہیں
جانے آنسو ہیں یا بارش، کون اب اس پر دھیان کرے
ہم تو بس بھیگے موسم میں آنکھیں میچے بھیگتے ہیں
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment