ہم جو ہوتے ہیں کسی یاد کے باندھے ہوئے لوگ
ہم پہ الزامِ وفا یوں بھی بہت جچتا ہے
ہم کہ لوگوں میں علی بانٹے ہی اتنا گئے ہیں
وقت اپنے لیے بچتا ہے تو کم بچتا ہے
ہم نے تردیدِ ملامت تو کبھی کی ہی نہیں
جب کوئی لفظ کہا بھی ہے تو سینے سے کہا
صبر کی داد کبھی غیر سے مانگی ہی نہیں
آہ مولا نے سنی، حال مدینے سے کہا
شاہ منصور کی آنکھوں کا اشارہ جو ہوا
ہم نے بازار میں بلھے کی طرح رقص کیا
دعوئِ فقر، نہ اعلان ولایت ہم کو
آئینے جانتے ہیں ہم نے کسے عکس کیا
خانۂ ہجر میں ہجرت سے بنا چاک تو ہے
قیمتی گر نہ سہی عشق کی پوشاک تو ہے
دستِ کم ظرف کجا، نسبتِ شہہ حرف کجا
اپنے حصے میں علی مملکتِ خاک تو ہے
ایک ہی در ہے کہ ہم جس کے گدا ہیں بابا
غور سے دیکھ کہ ہم کس میں فنا ہیں بابا
علی زریون
No comments:
Post a Comment