درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسِیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹُوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب مِلے بھی تو مِلتا ہے اس طرح جیسے
بُجھے چراغوں کو چُھو کر ہَوا گزرتی ہے
غیروں کے ساتھ بیٹھے ہیں اس انجمن میں ہم
کانٹوں سے واسطہ ہے مگر ہیں چمن میں ہم
سمجھو نہ داغ دامن دل میں یہ پھول ہیں
اب ہیں قفس نصیب کبھی تھے چمن میں ہم
رسوا نہ زخم تیر نظر ہو یہ خوف ہے
ہاتھوں سے دل چھپائے ہوئے ہیں کفن میں ہم
محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا
خدا کی ذات باقی ہے محبت ہے خدا میرا
نہ جیتے جی ہوا ہرگز وفا نا آشنا میرا
پر اس کی داستاں بن کر رہا ذکر وفا میرا
جفا کا تیری طالب ہوں وفا ہے مدعا میرا
یقین نا مرادی پر بھی دیکھو حوصلہ میرا