Saturday 18 January 2014

ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی

ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی
 پھر بھی محبت صرف مسلسل مِلنے کی آسانی تھی
 جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
 جس دن اُس کا خط آیا تھا، اس دن بھی ویرانی تھی
 جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
 تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی
 جس دن وہ مِلنے آئی تھی اس دن کی رُوداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا، اس کی ساڑی دھانی تھی
 اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
 میرا مزاجِ عشق تھا شہری، اس کی وفا دہقانی تھی
 اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
 وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی رُوحانی تھی
 نام پہ ہم قربان تھے اس کے، لیکن پھر یہ طور ہُوا
 اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قُربانی تھی
 مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خُوش خُوش رہتی ہے
 اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی
 عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
 لمحے لافانی ٹھہرے تھے قطروں میں طغیانی تھی
 جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفاں سمجھا تھا
 وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی
 تھا دربارِ کلاں بھی اُس کا، نوبت خانہ اُس کا تھا
 تھی جو میرے دل کی رانی امروہے کی رانی تھی

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment