Saturday 18 January 2014

اب کے سفر میں تشنہ لبی نے

اب کے سفر میں تشنہ لبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بِھیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قید سے چُھوٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا
رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا
درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا
جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اس سے مل کر آئے
آپ نے اس کو کیسا پایا، آپ نے اس کو کیسا دیکھا
کیسا شخص تھا زرد رتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اس کو دھوپ سا کھلتا پایا، اس کو پھول سی کھلتا دیکھا
ابر کی چادر تان کے جِھیل میں ساتوں رنگ رچانے اترا 
موجۂ آب کی تہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا
تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا
محسن بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عمر کے بعد ہوا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment