Tuesday 14 January 2014

خامشی کو اس طرح جھنکار کر لیتا ہوں میں

خامشی کو اس طرح جھنکار کر لیتا ہوں میں
جا چکی آواز سے تکرار کر لیتا ہوں میں
کام پر ہوتا ہوں تو جی کھول کر سوتے ہیں غم
رات بستر پر انہیں بیدار کر لیتا ہوں میں
حالِ دل لکھتے ہوئے حالات کرتا ہوں بیاں
اپنے ذاتی خط کو بھی اخبار کر لیتا ہوں میں
ایک خوشبو کی طرف جاتا ہوں آنکھیں موند کر
اور آسانی سے دریا پار کر لیتا ہوں میں
تھک بھی جاتا ہوں کبھی لوگوں کے کام آتے ہوئے
کوئی اپنا ہے جسے انکار کر لیتا ہوں میں
دیکھتا آیا ہوں بچپن سے ہی سورج کی طرف
اس لیے تم سے بھی آنکھیں چار کر لیتا ہوں میں

ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment