Tuesday 14 January 2014

رسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ

رُسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
دیکھو تو یہاں ذلت و عزت بھی نہیں کچھ
کچھ کام ہمارے یہاں ہوتے بھی نہیں ہیں
کچھ یوں ہے کہ ہم کو یہاں عجلت بھی نہیں کچھ
ایسا بھی نہیں کچھ کہ کریں ترکِ تعلق
ورنہ تو یہ طے ہے کہ محبت بھی نہیں کچھ
ہر چند ہوئے تنگ ہم اس شورشِ دل سے
پر نام سے تیرے ہمیں وحشت بھی نہیں کچھ
کچھ لوگ بھی خود مست و کم آمیز ہوئے ہیں
اور یہ بھی کہ پہلی سی مروّت بھی نہیں کچھ
یکسانئ نظارہ سے جی بھر بھی گیا ہے
اس رُخ پہ گزشتہ کی وہ رنگت بھی نہیں کچھ
کچھ بارِ محبت بھی بڑھا جاتا ہے ہر دَم
یہ بوجھ اٹھانے کی وہ ہمت بھی نہیں کچھ
کچھ رات کا جادو بھی لیے پھرتا ہے ہم کو
اور ہم کو بہت سونے کی عادت بھی نہیں کچھ
وہ چشمِ فسوں کارِ گریزاں بھی ہے ہم سے
اب لطف و عنایت کی ضرورت بھی نہیں کچھ
ہر چیز یہاں پر ہے فراموشی کی زد پر
تم بھول گئے ہم کو تو حیرت بھی نہیں کچھ
ہیں خاک تو پھر خاک سے نسبت تو رہے گی
پیوند زمیں ہیں، تو ہزیمت بھی نہیں کچھ

ابرار احمد

No comments:

Post a Comment