Tuesday 14 January 2014

جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بتاؤ میاں

جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بِتاؤ میاں
اب اس کے وعدۂ فردا کو بھول جو میاں
دیار رفتہ کا قصہ کوئی سناؤ میاں
جو خواب سوئے ہوئے ہیں انہیں جگاؤ میاں
یہ آپ ہم خس و خاشاک ہیں ہمارا کیا
ہمیں تو بہنا ہے جس سمت ہو بہاؤ میاں
فساد و شور طلب میں گنوا دیا ہے اسے
وہ ایک شے جسے کہتے تھے رکھ رکھاؤ میاں
ہمیں کہ زخم نظارہ پسند بھی ہے بہت
اور ابکے اسکی جھلک سے لگا ہے گھاؤ میاں
نہیں اگر رُخِ آیندہ کی خبر معلوم
تو پھر چراغِ رہِ رفتگاں جلاؤ میاں
جو استطاعت خیر جہاں نہیں تم کو
تو اس زمین پہ کوئی حشر ہی اٹھاؤ میاں
یہ نقد جاں لیے آئے تھے ہم تمہارے حضور
سو تم بھی کرنے لگے ہم سے بھاو تاؤ میاں
جو لوگ سیل جہاں میں بچھڑ گئے ہم سے
جو ہو سکے تو انہیں پھر سے ڈھونڈ لاؤ میاں
جو دن ملے ہیں پھرو چار دانگ عالم میں
لگا ہوا ہے یہاں سب کا چل چلاؤ میاں
نہیں ہے گر کوئی رنگ نشاط کی صورت
تو کوئی محفلِ افسردگاں سجاؤ میاں
نہ تم نہ دنیا تمہاری ہمارے بس میں ہے
ہمیں تو دیکھنا ہے جو بھی دن دکھاؤ میاں
یہ بے گھری تو بہرطور ساتھ ہے پھر بھی
برا بھلا ہی سہی گھر کوئی بساؤ میاں
نہیں ہے پاسِ ادب، کچھ بھرم ہی رہنے دو
جو جی میں آئے کرو کیوں ہمیں بتاؤ ناں
نہیں رہے گا نشاں تک جہان امکاں میں
جو ہو سکے تو یہاں بات کچھ بناؤ میاں
بساطِ دہر الٹ دیں نہ ہم تو نام نہیں
رہِ جنوں میں کبھی ہم کو آزماؤ میاں
کہیں یہ حدِ ادب ہی نہ پار ہو جائے
بھرے ہوئے ہیں ہمیں اور مت ستاؤ میاں

ابرار احمد 

No comments:

Post a Comment