Monday, 13 January 2014

میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی

میری فضائے زِیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی
مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آ کے ہنسا گیا کوئی، جا کے رُلا گیا کوئی
سجدۂ عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی
مِرے تصوّرات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مرے دل حزِیں دیکھ وہ آ گیا کوئی
سب کی طرف لطف بزم میں تھی رواں دواں
ایک نظر میں بے کہے سب کو مٹا گیا کوئی
فِطرتِ عشق کے نثار، اس کو مِرا خیال تھا
صدقے غرورِ حُسن کے مجھ سے چھپا گیا کوئی

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment