Monday, 13 January 2014

دنیا سے مجھے مطلب اس کی نہیں پروا ہے

دُنیا سے مجھے مطلب اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مِری تم ہو، تم سے مِری دنیا ہے
بے کار ہے ہر حسرت ، بے سُود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلا دوں، تُو کون ہے، تُو کیا ہے
ہاں دِیں ہے تُو ہی میرا، تو ہی مِری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوۂ کامل کی
دل محوِ تماشا تھا، دل محوِ تماشا ہے
دنیائے محبت سے میں کس لئے گھبراؤں
دنیائے محبت میں مرنا ہے نہ جینا ہے
کچھ رحم کرو اس پر، کچھ کھاؤ ترس اس پر
دل کو نہ مِرے چھیڑو، دل عشق کا مارا ہے
آغاز بھی اچھا تھا، انجام بھی بہتر ہے
جب مجھ کو امیدیں تھیں اب دل کو سہارا ہے
چلتی ہے بہر صُورت دریا میں مِری کشتی
ہر موج ہے اِک طُوفاں، ہر موج کنارا ہے
کس واسطے شرمندہ ہوتے ہو بھلا آخر
بہزادؔ تو بے چارا، تقدیر کا مارا ہے​

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment