Saturday 18 January 2014

رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں

رات میں اِس کشمکش میں ایک پَل سویا نہیں
 کل میں جب جانے لگا تو اس نے کیوں روکا نہیں
 یُوں اگر سوچوں تو اِک اِک نقش ہے سینے پہ نقش
 ہائے وہ چہرہ، کہ پھر بھی آنکھ میں بنتا نہیں
 کیوں اڑاتی پھر رہی ہے دربدر مجھ کو ہوا
 میں اگر اِک شاخ سے ٹوٹا ہوا پتّا نہیں
 درد کا رستہ ہے یا ہے ساعتِ روزِ حساب
سینکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں
 شبنمی آنکھوں کے جگنو، کانپتے ہونٹوں کے پھول
 ایک لمحہ تھا جو امجد آج تک گزرا نہیں

 امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment