Saturday 18 January 2014

اداسی میں گھرا تھا دل چراغ شام سے پہلے

اداسی میں گِھرا تھا دل، چراغِ شام سے پہلے
 نہیں تھا کُچھ سرِ محفل، چراغِ شام سے پہلے
 حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
 پہنچنا ہے سرِ منزل، چراغِ شام سے پہلے
 دلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اٹھتی ہے
 عجب ہلچل، عجب جھل مِل، چراغِ شام سے پہلے
 وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے
 ہم اپنی عمر کی ڈھلتی ہوئی اِک سہ پہر میں ہیں
 جو ملنا ہے ہمیں تو مل، چراغِ شام سے پہلے
 ہمیں اے دوستو! اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
 کہ چھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے
 سحر کا اولیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
 ہے دن کا بھی تو مستقبل، چراغِ شام سے پہلے
 نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے
الجھتی کیوں ہے اتنی گِل چراغِ شام سے پہلے
 محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھر دی
کہ جل اٹھتا ہے امجد دل، چراغِ شام سے پہلے

 امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment