Saturday, 18 January 2014

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

نِیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
 تُو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں
 آج دیکھا ہے تُجھ کو دیر کے بعد
 آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
 نہ مِلا کر اداس لوگوں سے
 حُسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
 آرزو ہے کہ تُو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
 جی جلاتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں
 رائیگاں یہ ہُنر نہ جائے کہیں
 آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
 پھر یہ دریا اُتر نہ جائے کہیں 

ناصر کاظمی

1 comment: