ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سُنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مِٹ جائے گا
رُوکھی سُوکھی جو مِل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
کیا جانے کیا رُت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment