Saturday 18 January 2014

رتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں

رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
 ہوا کے ساتھ، ہوا کی امانتیں بھی گئیں
 تیرے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
 ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
 جو آئے جی میں پکارو مجھے، مگر یوں ہے
 کہ اُس کے ساتھ اُس کی محبتیں بھی گئیں
 عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں
 یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجدؔ
 کہ ہار تھک کے گھروں سے قیامتیں بھی گئیں

 امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment