آنکھوں کو نہیں سُوجھتا، آزار کہاں ہے
احساس کے تلوے میں چُھپا خار کہاں ہے
جو جھاگ سا اُٹھا تھا کبھی اپنے سروں سے
اب دیکھیے وہ طرۂ پندار کہاں ہے
ہلچل سی مچا دیتا تھا جو کاسۂ خوں میں
شعلہ تو کہاں کا کہ دھواں تک نہیں دیکھا
موجود پسِ لب ہے جو وہ نار کہاں ہے
تہ دار ہے، اُلجھاؤ نہیں اُس کے سخن میں
ماجدؔ کا لکھا ایسا پُراسرار کہاں ہے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment