Saturday 18 January 2014

پڑے ہیں دیکھنے کیا کرب آشکار کے دن

پڑے ہیں دیکھنے کیا کربِ آشکار کے دن
 زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن
 بنامِ کم نظراں، لطفِ لمحۂ گزراں
 ہمارے نام نئی رُت کے انتظار کے دن
 بدن سے گردِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی
 لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن
 طویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریں
چمن پہ، رنگ پہ، خوشبو پہ اختیار کے دن
 نئے دنوں میں وہ پہلا سا رس نہیں شاید
 کہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دن
 فلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسے
 زمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دن
 یہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکر
 یہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گِنَت شُمار کے دن

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment