Saturday 18 January 2014

رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار

رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار
 ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار
 کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب
 ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار
 رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے
 جو بھی ہے کھلیان اُس کو ہے شرر کا انتظار
 کاوشِ اظہارِ حق سے کب بہم ہو گا اِنہیں
اہلِ فن کو جانے کیوں ہے سیم و زر کا انتظار
 تشنہ لب خوشوں کی آنکھیں بوندیوں پر ہیں لگی
 بحر کو بہرِ تموّج ہے قمر کا انتظار
 اک سے اک بے جان سُورج اپنے پہلو میں لیے
 ہر سحر سونپے ہمیں، اگلی سحر کا انتظار
 کرب کے آنسو طرب کے آنسوؤں میں کب ڈھلیں
 آنکھ کو ماجدؔ ہے کیوں پھر بھی گہر کا انتظار

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment